تحریر : رئیس احمد
یوپی کے اسیمبلی الیکشن کے نتائج آنے کے بعد ہمارے بہت سارے بھائیوں کے کثیر تعداد میں کمنٹ آ رہے ہیں خوب تجزیے اور تبصرے ہو رہے ہیں بلکہ سوشیل میڈیا پر ایک نئی جنگ چھڑ گئی ہے بڑی تعداد میں لوگ EVM مشین کا رونا رو رہے ہیں کچھ الیکش کمیشن پر سانٹھ گانٹھ کا الظام بھی لگا رہے ہیں اور کچھ حضرات اویسی کو گالیاں دے رہے ہیں اور کچھ آر ایس ایس کے سر پہ سہرا باندھ رہے ہیں
مگر کوئی بھی شخص اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے کی ہمارے اندر بھی کچھ کمی ہے یا نہیں؟
یہ ظالم حکمران آخر کیوں ہم پر مسلط کئے جا رہے ہیں؟
ہم پر ظلم و ستم جبر و تشدد میں دن بہ دن اضافہ آخر کیوں ہوتا جا رہا ہے؟
کسی بھی شخص کو اپنے اندر کوئی کمی نظر نہیں آتی ہر شخض اس کا سیاسی حل تلاش کرتا پھر رہا ہے اگر ایسا کر لیتے تو ویسا ہو جاتا ، اگر ویسا کر لیتے تو ایسا ہو جاتا ۔ غرض بحث و مباحثے تو بہت ہو رہے ہیں مگر کوئی شخص اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے
ہمیں سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے ہمیں سب سے پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہیئے اور غور کرنا چاہیئے آخر کہاں ہم سے غلطی ہو رہی ہے؟
ہم کیوں اس طرح مغلوب ہو رہے ہیں؟
ہم کیوں پستی کے شکار ہو رہے ہے ؟
میں بلکل سادے الفاظ میں یہ صاف صاف کہتا ہوں اگر ہم سچے مسلمان بن جائیں اگر ہم اپنے اندر دین قائیم کر لیں اللہ کی مرضیات پر عمل کریں اور اللہ کی منہیات سے مکمل طور پر باز آ جائیں تو اللہ سبحانہ و تعالی کا وعدہ ہے ہم ہی غالب رہیں گے اور ہمیں ہی سر بلندی حاصل رہیگی مگر کب ؟
جب ہم مومن ہونگے متقی ہوں گے پرہیزگار ہونگے
مگر کیا آج ہمارے اندر ایک مومن کے صفات ہیں؟
کیا ہم متقی ہیں؟
نہیں ہم بس نام کے مسلمان ہیں
اگر ہم مومن بن جائیں متقی پرہیزگار بن جائیں قرآن و سنت پر عمل پیرا ہو جائیں تو ہمیں کسی ظالم سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اللہ تمام ظالموں کو مغلوب کر دیگا اور ہمیں ان پر غلبہ عطاء فرمائے گا ( جیسا کہ قرآن کریم میں بہت سی قوموں کا ذکر ہے بڑے سے بڑے ظالم اور جابر آئے اور جہنم رسید ہو گئے ) بشرط یہ ہے کی ہم سچے پکے مسلمان بن جائیں
اور اللہ سبحانہ و تعالی نے اس بات کا قران میں وعدہ کیا ہے اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے
وَ لَا تَہِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ
تم نہ سُستی کرو اور نہ غمگین ہو ، تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایماندار (مومن )ہو ۔
سورة آل عمران 139
بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا جب اللہ نے بندوں سے وعدہ کیا ہے کی تم ہی غالب ہو گے تم ہی اس زمیں پر حکمرانی کرو گے تم ہی سر بلند رہو گے تو ہمیں اس پر سچے دل سے ایمان لانا چاہیے
اور اللہ کے حکم کی پیروی میں کوئی کوتاہی اور سستی نہیں کرنی چاہیے
آج ہماری پستی اور زوال کے متعدد اسباب میں سے ایک سب سے بڑا سبب ایمان کی کمزوری ہے آج ہمارا ایمان آخری سانسیں لے رہا ہے آج ہمارا ایمان بلکل موت کے کگار پے ہے آخری اسٹیج پر ہے۔ (الا ماشاء الله)
ہمارے زوال اور پستی کا سبب ہماری ہی بداعمالیاں ہیں ہم صبح سے شام تک کے اپنے اعمال کو چیک کریں غور کریں تو ہم خد سمجھ سکتے ہیں کہ ہم کیسے کیسے اعمال اللہ رب العالمین کے سامنے پیش کرتے ہیں جو ہم اپنے اوپر اللہ کی رحمت نازل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں
مگر پھر بھی اللہ سبحانہ و تعالی کی رحمت ہم کو گھیرے ہوئے ہے جو ہم آج صحیح سلامت ہیں کھا پی رہے ہیں۔
ہاں البتہ ہمیں یہ جاننا چاہیے کی ہم کون ہیں ہم تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں کیا ہم واقعی مسلمان ہیں یا صرف نام کے مسلمان ہیں
ہمارا مقصد حیات کیا ہے؟
کیا ہم دنیاں میں موج مستی کے لئے آئے ہیں کہ ہم کھائیں، کمائیں ، بچے پیدا کریں اور مر جائیں؟
کیا ہماری صبح سے شام تک کی یہی ایک فکر ہونی چاہیے 10 ہزار سے 20 ہزار کیسے ہوں۔
نہیں ہرگز نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالی قرآن کریم میں ہمارا مقصد حیات بیان فرما رہا ہے فرمان باری تعالی ہے
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ
میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔
سورة الذاريات 56
اب اس آیت کی روشنی میں ہم اپنا محاسبہ کریں ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہماری دنیا میں آمد کا مقصد کیا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟
ہم آج خد اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ واقعی اس آیت پر کھرے اترتے ہیں کی نہیں؟
بلکل نہیں ہم نے حقیقی مقصد حیات کو بھلا دیا ہے اور ہم اس فانی دنیا میں مست مگن ہو گئے ہیں ہم نے اس دنیا کی زندگی کو ہمیشہ کی زندگی سمجھ لیا ہے۔
اور دوسرے یہ کہ ہم میں سے اکثریت لادینیت کےشکار ہیں
نماز ہم نہیں پڑھتے، روزہ ہم نہیں رکھتے صاحبے استعاعت ہونے کے باجود حج ہم نہیں کرتے یتیموں مسکینوں کا خیال ہم نہیں کرتے ذكاة ہم نہیں دیتے چوری چکاری ہم کرتے ہیں جھوٹ ہم بولتے ہیں حرام و حلال کی تو ہمیں کوئی تمیز ہی نہیں ہے
غرض یہ کہ معاشرے کے اندر جتنی بھی برائی ہے ہمارے اندر وہ ساری کی ساری موجود ہے ۔
دراصل یہی ہماری بداعمالیاں ہی ہماری ساری پریشانیوں اور مصیبتوں کا اصل سبب ہیں اگر ہم اپنے گریبان میں جھاکیں ہم اپنا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم خد ہی اپنی پستی کے ذمہ دار ہیں دوسرا کوئی اور نہیں
ہم ذرا تنہائی میں بیٹھ کر غور فکر کریں کہ کیا ہم دوسروں کو فاعدہ پہنچانے والے ہیں یا نقصان؟
ہماری ذات سے لوگوں کو فاعدہ ہوتا ہے یا نقصان؟
ذرا ہم خد غور کریں اپنی ذات پر کیا ہم معاشرے کی بہتر اصلاح کی کوشش کرتے ہیں؟
یا ہم خد تخریب کار ہیں
ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں کیا ہمارے اندر وہ صفات پائی جاتی ہے جو ایک مسلمان کے اندر ہونی چاہیے؟
اسلام کا مقصد انسان کی پوری زندگی کو اللہ تعالی کی عبادت بنا دینا ہے
” انسان عبد یعنی بندا پیدا ہوا ہے اور عبوبیت یعنی بندگی اسکی عین فطرت ہے ۔ اس لئے عبادت یعنی خیال و عمل میں اللہ کی بندگی کرنے سے بھی ایک لمحے کے لئے بھی اس کو آزاد نہ ہونا چاہیے اسے اپنی زندگی کے ہر معاملے میں ہمیشہ اور ہر وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کس چیز میں ہے اور اس کا غضب اور ناراضگی کس چیز میں ہے پھر جس طرف اللہ کی رضا ہو ادھر جانا چاہیے اور جس طرف اس کا غضب ہو اس کی ناراضگی ہو یوں بچنا چاہیے جیسے آگ کے انگارے سے کوی بچتا ہے ( مولانا مودودی رح )
آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی حالت پر نظر اٹھا کر دیکھیں تو ایک ہاہا کار مچا ہوا ہے ہر طرف سے مسلمانوں کی چینخ و پکار سنائی دیتی ہے مسلمانوں کا قتل عام کرنا مسلمانوں کی نسل کشی کرنا مسلمانوں کی بہن بیٹیوں کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کرنا کفار کا پسندیدہ کھیل بن گیا ہے
اور ہمارے ملک میں بھی یہ شرپسند عناصر کی سرگرمیاں اس وقت پورے شباب پر ہیں ہمارے ملک میں موجودہ صورت حال بیحد افسوس ناک اور ناقابل تحریر ہے ہر جگہ مسلمان ظلم ذیادتی، خوف و دہشت قتل و فساد جبر تشدد، ذلت و پستی کے شکار ہیں
موجودہ وقت میں مسلمانوں کی حالت ہندوستان میں ایسی ہے کہ انگریزوں کی حکومت میں بھی ایسی نہیں تھی ہندوستان کی موجودہ حکومت مسلمانوں کے لئے ویسے ہی ہے جیسے ہٹلر کبھی یہودیوں کے لئے ہوا کرتا تھا
ملک کی باگ ڈور جب فاشسٹ طاقتوں کے ہاتھوں میں چلی جائے تو ملک کے اندر خانہ جنگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں
مگر ہم لوگوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہماری بداعمالیاں جاری رہیں گی تو اس سے بھی بڑھ کر اور بڑے بڑے ظالم حکمران آتے رہیں گے کیوں کی ہم حکمرانوں کو کوسنے کو تیار ہیں مگر توبہ کرنے کو تیار نہیں ہیں خد کو بدلنے کو تیار نہیں ہیں گناہ و معصیت سے بچنے کو تیار نہیں ہیں
اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن میں فرمایا
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا
کسی قوم کی حالت اللہ تعالٰی نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں ۔
سورة الرعد 11
یاد رکھیں اللہ تعالی بھی اس قوم کی حالت کو تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خد بدلنا نہ چاہے جو قوم رات رات بھر جاگ کر فلمیں دیکھے اور آدھا دن سوئے۔ وہ اس قوم کے سامنے کیسے ٹک سکتی ہے جو اپنے مقصد کے حصول کے لئے پوری طرح کمربستہ ہو
یہ الیکشن کے نتائج منجانب اللہ ہمیں جھنجھوڑ نے کے لئے ہیں
اگر اب بھی ہم ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر ہمیں کسی قسم کے شکوہ شکایت کا کوئی حق نہیں دراصل اپنے گریبان میں جھانکنے کے سوا کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں۔
دراصل مسلمانوں کے پستی کے بنیادی دو اسباب ہیں
پہلا سبب اپنی زندگی سے قرآن و سنت کو پسے پشت ڈال دینا اور دوسرا سبب مسلکی اختلافات ہے
اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن میں فرمایا
وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا
اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ۔
سورة الفرقان 30
اللہ اکبر یہ آیت ہماری زندگی میں انقلاب لانے کے کافی ہے کی جو نبی محسن انسانیت ہیں جو نبی ہمارے لئے اللہ سے شفارشی ہونگے وہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے ترک قرآن پر ہمارے خلاف گواہ بھی ہونگے اور ان سے بڑھ کر اور کس کی گواہی ہو گی ہمیں ڈر جانا چاہیے۔
اور دوسرا سبب ہمارا مسلکی اختلاف ہے جس نے ہماری کمر توڑ کے رکھ دی ہے جس نے ہمیں سمندر کی جھاگ کی مانند بنا دیا ہے ہمیں ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا یہی وجہ ہے آج ہم کتوں بلیوں کی طرح چاروں طرف مارے جا رہے ہیں جو چاہتا ہے ہمیں جیسے مارتا ہے پیٹتا ہے
آئیے قرآن میں دیکھتے ہیں اللہ نے ہمیں کیا نصیحت فرمائی ہے
فرمان باری تعالی ہے
وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ وَ اصۡبِرُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ۔
اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہار رکھو یقیناً اللہ تعالٰی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
سورة الأنفال 46
اور دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا
اللہ تعالٰی کی رسّی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔
سورة آل عمران 103
اور میں علامہ اقبال کے چند اشعار کے ساتھ اپنی بات کو ختم کرتا ہوں جو آپ اکثر علماء کرام سے سنا کرتے ہیں
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہے سب کا نبی،دین بھی،ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی،اللّه بھی،قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہے
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہے
یوں تو سید بھی ہو،مرزا بھی ہو،افغاں بھی
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ کیا مسلمان بھی ہو
آخیر میں اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا گو ہوں اللہ ہم تمام مسلمانوں کو ایک اور نیک بنا دے
آمین یا رب
Post View : 119