صاحب عالم انصاری
ہر سال ماہ ربیع الاول رحمتوں، برکتوں اور روحانی نعمتوں کا تحفہ لے کر آتا ہے اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کی زندگی میں نئی روح پھونکنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس ماہ میں اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے اکثر چینل ۱۲ ربیع الاول کو اپنی خصوصی نشریات کا اہتمام کرتے ہیں۔ بستی بستی میلاد النبیؐ کے جلسے منعقد ہوتے اور جلوس نکلتے ہیں۔ اسکولوں میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ یوں اس مہینے کے ۲۹ یا ۳۰دنوں میں ایک دلی اظہارِ محبت و وابستگی کے بعد اُمت مسلمہ مطمئن ہوجاتی ہے کہ اُس نے حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کر دیا۔
مشکوٰۃ شریف میں حضرت عبدالرحمن بن ابی قرادؓ فرماتے ہیں، ”ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔ آپؐ کے کچھ اصحاب آپؐ کے وضو کا پانی لے کر اپنے چہروں پر مَلنے لگے تو آپؐ نے پوچھا تمہارے اس کام کا محرک کیا ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور رسولؐ کی محبت۔ آپؐ نے فرمایا، جن لوگوں کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ اللہ اور رسولؐ سے محبت کرتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ جب بات کریں تو سچ بولیں، جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس کو (بہ حفاظت) مالک کے حوالے کریں اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں“۔ حضرت انسؓ کی ایک روایت بخاری و مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُس کی نگاہ میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں“۔ اگر صرف ان دو احادیث پر ہی غور کیا جائے تو آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں ان کے حوالے سے ان میں بیش بہا ہدایات موجود ہیں۔
بلاشبہ محبت کے مظاہر ایک فطری عمل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن اس کے ساتھ محبت کی اصل روح اور تقاضوں کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ محبت کی تعریف اور مفہوم یہ نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس پانی سے وضو فرمایا ہو اس کو تبرکاً اپنے چہرے پر مل کر یہ سمجھ لیا جائے کہ اس برکت کے سہارے ربِ کریم ہم پر عنایت فرما دے گا، بلکہ محبت کا تعلق ’عمل‘ سے ہے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی قلبی کیفیت اور وابستگی کو حکمتِ رسالت کے ذریعے تین ایسے اعمال میں بدل دینے کا حکم دیا جو ایک مسلمان کو صحیح معنوں میں مومن بنا سکتے ہیں، چنانچہ پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ جب بات کریں تو سچ (صدق) کو اختیار کریں۔ یہ صدق محض زبان سے سچی بات کہنے تک محدود نہیں ہے۔ اس کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ اصل مقصد اور ہدف اپنے تمام معاملات میں صدق کو اختیار کرنا مطلوب ہے۔ صدق جس کی طرف خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے حبِ رسول کے حوالے سے متوجہ فرمایا۔ اہلِ ایمان کی صفات کے حوالے سے بارہا قرآن کریم میں بیان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ سورۂ احزاب میں اہلِ ایمان کی جن صفات کا ذکر ہے اس میں صدق کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ”اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآءِمِیْنَ وَالصّآءِمٰت آ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ لا اَعَدَّاللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا“ یعنی بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز (صادق اور صادقات) ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ (بشمول زکوٰۃ) دینے والے ہیں، روزے رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کررکھا ہے۔
رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے عملِ صالح کے ذریعہ حبِ رسولؐ کے لازمی مظہر کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے وہ بھی قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ہے جس کے بغیر ہم موجودہ اخلاقی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی انتشار سے نہیں نکل سکتے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،”ویُؤَدِّ امانتہٗ اذائتُمِنَ“ یعنی امانت کو بہ حفاظت مالک کے حوالے کرے۔ قرآن کریم نے امانت کو اہلِ ایمان کی اوّلین صفات کے طور پر جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ سورۂ مومنون میں فرمایا گیا، ”وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ“ یعنی اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں۔
ایک اور اہم ہدایت جو حبِ رسولؐ کے حوالے سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی وہ پڑوسی کے حقوق ہے۔ پڑوسی سے مراد محض فوری پڑوسی نہیں ہے بلکہ ۴۰ گھر سیدھے ہاتھ کی طرف اور ۴۰ گھر بائیں ہاتھ کی طرف پڑوسی شمار کیے جائیں گے۔ ایسے ہی پڑوسی سے مراد وہ شخص بھی ہے جو سفر میں ہمارے ساتھ ہو۔ گویا اتنے کم عرصے کے لیے بھی اس کے حقوق کا خیال رکھنا حبِ رسولؐ کا تقاضا اور مطالبہ ہے۔ اٰل عمران میں اللہ کا ارشاد ہے، ”قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ“ یعنی اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ان سے کہو کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت قبول کرو۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔*
Post View : 56