جاوید صدیقی کے خاکوں میں ہنر مندی
الیاس شوکی
انہونے (جاوید صدیقی) نے بعض خاکوں میں اپنے بچپن کے حالات کا جو نقشہ کھینچا ہے انہیں پڑھکر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بچپن سے زہین اور حساس تھے – جو کچھ ان کے آس پاس ہو رہا تھا اسکا انھیں خوب ادراک تھا اور یہ بھی احساس تھا کہ وہ کون اور کیا ہیں – زمانے کے ہاتھوں لٹے ایک خاندان کا ایسا فرد جو کم عمری میں ہی یتیم ہو گیا – اس لئے اس نے اپنے آس پاس جو کچھ اس نے دیکھا اور اس کے تجربہ کا حصّہ بن کے اسکی زندگی میں شامل ہو گیا- اپنے والد کی موت پر لوگوں کے تا ثرات اور رویے کو جس طرح جاوید صدیقی نے محسوس کیا ، لکھتے ہیں :
ابّو کی موت کے بعد سب لوگ جس طرح مجھے دیکھتے تھے اس سے چڑ ہونے لگی تھی – ہر نظر ترس کھاتے ہوئی دکھائی دیتی تھی اور ہر ہونٹ افسوس کرتا ہوا سنائی دیتا تھا – جب بھی کوئی بزرگ سر پر ہاتھ پھیرتا تو ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ ہاتھ بول رہا ہو : ‘ہاے اس معصوم کا کیا ہوگا ؟ ” صرف ایک گھر ایسا تھا جہاں بے مطلب افسوس اور بے معنی ہمدردی کی برسات نہیں ہوتی تھی ، مگر وہ گھر شہر سے بہت دور تھا – پھر بھی جب دل گھبرانے لگتا تو دو آنے گھنٹے کی کرائے کی سائکل لیتا یا کسی دوست سے مانگ لیتا اور قمر باجی کے گھر پہنچ جاتا “-
ایک تھے بھائی
اس بیان میں میں جاوید صدیقی نے جو کچھ اس وقت دیکھا اور جو ان پر گزری اس کا دور آج بھی محسوس کیا جاسکتا ہے – یہ ‘ہوتا شب و روز تماشا مرے آگے ‘ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ‘دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں ‘ کی تصویر کشی ہے- اس لئے ایک ایسا لڑکا جو اپنی نوجوانی میں قدم رکھ چکا تھا لیکن اس کے حالت نے اسے مجبور اور بے دست و پا کر رکھا ہو، جب اسے بمبئی جیسے خوابوں کے شہر آنے کی دعوت ملے تو اسکا کیا حال ہوگا اس کا ذکر بھی جاوید صدیقی نے بڑے ہی دلچشپ انداز میں کیا ہے :
“ایک وقت ایسا آیا کی جب سب لوگ میرے بارے میں سوچ سوچ کر اتنا پریشان ہو گئے کہ انہونے سوچنا ہی چھوڈ دیا – تب ایک حیرت انگیز واقعہ ہوا – بمبئی سے ہمارے ے رشتے دار اور روزنامہ ‘خلافت ‘ کے ایڈیٹر زاہد شوکت علی کا خط آیا جس میں ابّو کے انتقال پر افسوس کے بعد مشورہ دیا تھا کی مجھے بمبئی بھیج دیا جائے انہونے لکھا تھا :
“اس لڑکے کو کہانیوں اور کھبار کے مزاحیہ کالم ‘باغ و بہار ‘کے لئے بھیجے گئے مضامین کو پڑھکر اندازہ ہوتا ہے کہ لڑکا کافی زہین ہے اور اگر اسکی صلاحیت کو نکھارا جائے تو یہ ایک اچّھا صحافی بن سکتا ہے – اسے بمبئی میں رہنے سہنے کی بھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ خلافت ہاؤس بہت بڈا ہے اس میں بہت سے لوگ رہتے ہیں-اس کے لئے بھی گنجائش نکلا ہی آئے گی-“
ایک تھے بھائی
اس موقع پر انھیں ایک اور تجربہ ہوا وہ بھی ذہنی طور پر کم اذیت ناک نہیں تھا – ایک نئی اور خوشگوار زندگی انکے سامنے باہیں پھیلائے کھڈی تھی جو انکے سارے گزشتہ دکھوں اور مسائل کا مدوا بن سکتی تھی ، لیکن اس وقت بمبئی آنے کے مصارف ان کے لئے گائے بچ کر ان کے بمبئی آنے کا انتظام کرتے ہیں – یہ ایسا واقعہ تھا جس نے جاوید صدیقی کے مردم شناشی کے نئے دروا کیے کہ آدمی بظاھر جیسا ہماری فہم کا حصّہ بنتا ہے عملی تجربہ سوچ کے اس اس زا ویے کو کو یکسر بدل سکتا ہے – انکے اس سلوک کو جاوید کبھی فراموش نہیں کر پائے- اس کا ذکر بدی پر اسرار انداز میں ‘ایک تھے بھائ ‘ کے خاکے میں آیا ہے- بمبئی کی اپنی ابتدائی زندگی میں وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ رہے- پہلے ‘خلافت’ اخبار میں ترجمہ کا کام کیا پھر زاہد شوکت علی کی ناراضگی کے سبب ‘خلافت’ سے علاحدگی کے بعد بمبئی کے دیگر کئی اخبارات سے وابستہ ہوئے- وہاں ان کی ملاقات سردار عرفان ،کامریڈ جبّار اور دیگر کئ نامور صحافیوں سے ہوئی-اس کا ذکر بھی انکے خاکوں میں بڑی تفصیل سے آیا ہے – یوں تو صحافی پیشہ بڈا محنت طلب کام ہے –اردو صحافت میں تو سونے پی سہاگہ ہے- اس پر بھی پیسے اتنے کم ملتے ہیں کہ بس کسی طرح سے گزارا ہو جاتا ہے-ان کی زندگی کا یہ دور بڈی آزمائشوں کا دور تھا-سلطانہ جعفری پر لکھے اپنے خاکے میں وہ ان سے اپنی ملا قات سے پہلے کے احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” شروع شروع میں کھانا کھانے کے بعد ایک سگریٹ بہت مزہ دیتی تھی ، پھر اسکی ضرورت بڑھنے لگی اور پھر کوئی بھی شریف آدمی مانگے کی سگریٹ پر کب تک گزارا کر سکتا ہے – اس لئے میں نے اپنے پیکٹ منگانا اور شمش صاحب کے احسانوں کا بدلہ اتارنا شروع کر دیا – اس زمانے میں گولڈ فلیگ کی ڈبیا ایک روپے کی آتی تھی – اور مل بانٹ کے پی جائے تو ڈیڑھ دو پیکٹ روزانہ کا خرچ تھا – با لفظ دیگر یہ تقریباً پچاس روپے مہینے کا خرچ بڑھ چکا تھا – بہت حساب لگایا بہت کوشش کی مگر ایک سو بیس روپیے میں کھانا چائے اور دیگر اخراجات کے ساتھ سگریٹ کسی صورت سے نہیں سمایا-مہینے کے آخر میں ٹرام اور بس کے پیسے بھی بھی نہیں بچتے تھے اور کچھ خانے پینے سے پہلے ہی جیب میں ہاتھ ڈال کر انگلیوں سے پیسے گن لیا کرتا تھا کی کہیں بل دیتے وقت بے عزتی نہ ہو جائے –”
موگرے کی بالیوں والی
یہی نہیں اور بھی بہت سی بٹن انکے خاکوں میں درآئی ہیں اور اس سے انکے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے – اپنی زندگی کے چند واقعات کا ذکر انہوںنے ‘بڑے پاپا ‘ میں بھی بدی دلچشپ انداز میں کیا ہے – مثلاً پڑھنے کا شوق انھیں بچپن سے ہی تھا – چونکہ خاندان پڑھے لکھوں کا تھا اس لئے کتاب کی کوئی کمی نہیں تھی ،اس نے شوق پر مہمیز کا کام کیا ،اس تعلّق سے لکھتے ہیں :
“میری پڑھنے کی رفتار اتنی تیز تھی کی چار پانچ سو صفحات کا ناول چوبیس گھنٹے میں چٹ کر جاتا- دادی برا بھلا کہتیں تو گھر کے کسی کونے میں چھپ جاتا یا چھت پی چلا جاتا ، مگر کتاب ہاتھ سے نہ چھوٹتی کوئی دلچشپ ناول ہاتھ لگ جاتا تو کھاتے وقت بھی پڑھا ئی کا سلسلہ جاری رہتا – یہ عادت تو کچھ عرصے پہلے تک رہی ہے اور بیوی کی مسلسل ڈانٹ کی وجہ سے چھوٹی ہے –
Post View : 5